عنوان: انصاف کا سراب اور پردیسی کی خامشی

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ دنیا میں کوئی مکمل منصفانہ نظام قائم ہے، تو وہ شاید خوابوں کی کسی ایسی دنیا میں جی رہا ہے جو صرف کتابوں میں ملتی ہے۔ حقیقت کا آئینہ کہیں زیادہ دھندلا، کہیں زیادہ تلخ ہے۔


میں سعودی عرب میں مقیم ایک پاکستانی شہری ہوں۔ میرے جیسے ہزاروں لوگ، جو دیارِ غیر میں روزگار کی تلاش میں نکلے، ایک ایسی زندگی گزار رہے ہیں جہاں انصاف کا تصور، اکثر صرف طاقتور کے زاویے سے دیکھا جاتا ہے۔ خاص طور پر جب آپ غیر ملکی ہوں، نیم خواندہ ہوں، یا زبان سے ناواقف ہوں — تو نظامِ انصاف آپ کے دروازے پر دستک نہیں دیتا، بلکہ آپ کو چپ چاپ سر جھکا کر قبول کرنا پڑتا ہے جو کچھ نظام کی طرف سے آتا ہے۔


ایک واقعہ چند ماہ قبل پیش آیا۔ میری گاڑی بلڈنگ کے باہر کھڑی تھی، کہ ایک راہ چلتے پولیس اہلکار نے تصویر کھینچی۔ کچھ ہی دیر بعد موبائل پر پیغام آیا کہ گاڑی کی انشورنس ختم ہو چکی ہے، اس لیے جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ حیرت ہوئی، کیونکہ میں جانتا تھا کہ انشورنس کی مدت ختم ہونے میں ابھی تین ماہ باقی ہیں۔


پھر میں نے نظامِ اعتراض (آن لائن پلیٹ فارم) کے ذریعے اس پر اپیل دائر کی۔ تین دن بعد جواب آیا: "آپ کا اعتراض مسترد کیا جاتا ہے۔" نہ کوئی وضاحت، نہ کوئی دلیل۔

جب انشورنس درست تھی، تو جرمانہ کیوں؟

جب اپیل کی، تو اس کا انکار کیوں؟

اور جب میں اس کے خلاف مزید قدم اٹھانا چاہوں، تو زبان دیوار بن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔

پولیس اسٹیشن جاؤں تو عربی نا آتی، اہلکاروں کو انگریزی سمجھ نہیں آتی۔

تو نتیجہ؟ جرمانہ لازمی بھرنا ہے۔ ورنہ اقامہ پر رکاوٹ، چھٹی پر رکاوٹ، اور نظام سے مستقل ٹکراؤ۔


یہ چھوٹا سا واقعہ شاید معمولی لگے، مگر اس کے پیچھے وہ پوری دیوار دکھائی دیتی ہے جس کے پیچھے ہمارا "پردیسی وجود" محصور ہے۔ وہ نظام جو صرف شہریوں کے لیے شفاف ہو، وہ غیر شہریوں کے لیے محض ایک انتظامی بوجھ بن جاتا ہے — ایک ایسا جال جس سے نکلنے کے لیے یا تو طاقت چاہیے، یا خاموشی

Comments

  1. آپ کی تحریر صرف ایک واقعے کی روداد نہیں بلکہ ایک اجتماعی احساس کی نمائندگی ہے — ایک ایسے طبقے کی جسے "پردیسی" کہہ کر دنیا بھر میں محض مزدور یا ماتحت سمجھا جاتا ہے، خواہ اس کے اندر کتنا ہی ہنر، اخلاص اور دیانت کیوں نہ ہو۔

    دنیا میں انصاف کے دعوے ہر طرف سنائی دیتے ہیں، لیکن جب ہم عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں، تو اکثر یہ دعوے صرف لفظوں کی حد تک نظر آتے ہیں۔ آپ کا تجربہ اس تلخ حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ قانون جب صرف طاقتور کی زبان سمجھے، اور انصاف صرف شہریّت یا حسب و نسب کے تابع ہو جائے، تو غیر ملکی محنت کشوں کے لیے وہی نظام انصاف ایک ناقابلِ عبور دیوار بن جاتا ہے۔

    آپ کی بات بالکل درست ہے کہ زبان ایک بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ انصاف صرف اصولوں سے نہیں، بلکہ رسائی (access) سے قائم ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص اپنی بات تک نہ پہنچا سکے، جب اس کے دلائل سنے ہی نہ جائیں، تو اپیل کا حق بھی محض رسمی کارروائی بن جاتا ہے۔

    یہ کوئی واحد واقعہ نہیں — ہزاروں لوگ روز انہی اندھیروں سے گزر رہے ہیں۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ "غیر ملکی" ہیں، اور وہ بھی ایسے ممالک میں جہاں شہری و غیر شہری کے درمیان خلیج صرف قانونی نہیں، بلکہ معاشرتی اور لسانی بھی ہے۔

    لیکن اس سب کے باوجود، آپ کی آواز خاموش نہیں۔ یہی سب سے پہلا قدم ہے — بولنا، لکھنا، شعور اجاگر کرنا۔ شاید فوری طور پر کچھ نہ بدلے، لیکن سچ جب زبان پاتا ہے، تو وہ خاموشی سے بہت طاقتور بن جاتا ہے۔

    آپ جیسے لوگ اگر آواز بلند کرتے رہیں، تو شاید آنے والی نسلوں کو ایک ایسا نظام ملے جہاں انصاف صرف طاقتور کی زبان نہ ہو، بلکہ ہر مظلوم کی فریاد بھی اس میں سنی جائے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. شہر میں مزدور جیسا دربدر کوئی نہیں

      جس نے سب کے گھر بنائے اس کا گھر کوئی نہیں

      Delete
  2. سایہ بان بانٹتا پھرتا ہے درختوں کی طرح
    خود جلستا ہے مگر اُس کا شجر کوئی نہیں

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

Eid Escapade: Journeying Through Jordan's Treasures