ایک الزام، ایک سزا
✍️ سیماب کے قلم سے
آج سے چوبیس سال پہلے پنجاب یونیورسٹی کی ایک ہونہار طالبہ، وجیہہ عروج، کو اس وقت زندگی کے کٹھن ترین مرحلے کا سامنا کرنا پڑا جب انہیں ایک امتحانی پرچے میں "غیر حاضر" قرار دے دیا گیا—جبکہ وہ اس پرچے میں شریک ہو چکی تھیں۔
وجیہہ نے اپنے والد کے ہمراہ ڈیپارٹمنٹ جا کر معاملہ واضح کرنے کی کوشش کی۔ وہاں موجود ایک کلرک نے ان کے والد سے کہا:
"آپ کو کیا پتا آپ کی بیٹی پیپر کے بہانے کہاں جاتی ہے؟"
یہ جملہ وجیہہ کے لیے ایک پہاڑ کی مانند گرا۔ وہ کبھی کلرک کو دیکھتیں، کبھی اپنے والد کو۔ لمحوں میں ان کا وجود مشکوک بنا دیا گیا۔ ان کی ماں کی نگاہیں بھی بدلی بدلی محسوس ہوئیں۔
اگر کلرک صرف حاضری رجسٹر دیکھ لیتا، یا پرچوں کا ریکارڈ کھنگال لیتا، تو بات ختم ہو جاتی۔ لیکن اس نے کردار پر حملہ کرنا زیادہ آسان سمجھا۔
وجیہہ نے ہار نہیں مانی۔ انہوں نے یونیورسٹی پر مقدمہ دائر کیا۔ ان کے والد نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ چار ماہ بعد یونیورسٹی نے عدالت میں اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے ان کا پرچہ پیش کر دیا۔ لیکن اب معاملہ محض ایک پرچے کا نہ تھا—بلکہ کردار کی بحالی کا تھا۔
یہ قانونی جنگ سترہ سال تک چلی۔ آخر کار، گزشتہ برس عدالت نے وجیہہ کے حق میں فیصلہ سنایا اور یونیورسٹی کو آٹھ لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔
وجیہہ کہتی ہیں کہ وہ مطمئن ہیں، لیکن دل میں نہ کر سکنے کا ایک خلاء ہمیشہ رہے گا۔ ان کی شادی ڈگری مکمل ہوتے ہی کر دی گئی، تاکہ بات مزید نہ پھیلے۔ وجیہہ اوروں جیسی نہیں تھیں، وہ لڑ گئیں۔ ہر لڑکی ایسا نہیں کر سکتی۔
وجیہہ کی کہانی پڑھتے ہی مجھے مستنصر یاد آیا—ہماری کمپنی کا ایک شوفر، جو ڈھائی سال تک بغیر کسی شکایت کے محنت اور خلوص سے کام کرتا رہا۔
پھر ایک دن ایک مسافر خاتون نے اس پر جنسی ہراسانی کا الزام لگا دیا—بغیر کسی ثبوت کے۔
اصل کہانی کچھ یوں ہے:
خاتون گاڑی میں بیٹھتے ہی سخت لہجے میں بولیں: "میرا بیگ گاڑی میں رکھو۔"
گاڑی میں بیٹھتے ہی شاپنگ بیگ سے کھانا نکالا۔ کمپنی کی پالیسی کے مطابق مستنصر نے گزارش کی کہ گاڑی میں کھانے کی اجازت نہیں تاکہ اگلی سواری کو بدبو نہ آئے۔ یہ بات خاتون کو ناگوار گزری۔
بولیں: "اپنی اوقات میں رہو!"
سفر کے دوران مستنصر نے واش روم جانے کی اجازت مانگی، جس پر خاتون نے پھر تلخ رویہ اپنایا۔ سفر مکمل ہوا، لیکن اگلے ہی لمحے شکایت درج ہو گئی کہ ڈرائیور نے انہیں ہراساں کیا ہے۔
بغیر کسی تحقیقات، بغیر کسی تصدیق کے، مستنصر کو پروجیکٹ سے نکال دیا گیا۔
ادارے کے "ایمپلائیز ویلفیئر" کو جب حقیقت کا علم ہوا تو کارروائی شروع کی گئی۔ مگر متعلقہ سپروائزر اور سیفٹی اہلکاروں نے اپنی نوکری بچانے کے لیے مستنصر کو قربانی کا بکرا بنا دیا۔
اس دوران میرا نام بھی گھسیٹا گیا۔ الزام لگا کہ میں نے مستنصر کو شکایت درج کرانے کا مشورہ دیا—حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ مجھے تو علم بھی تب ہوا جب وہ ہمارے کمرے میں بیٹھا فون پر کال سن رہا تھا۔ اگلے دن محض ایک فون کال کے اسکرین شاٹ کی بنیاد پر میرے خلاف محاذ کھڑا کر دیا گیا۔
میں اس پروجیکٹ پر پہلے دن سے موجود ہوں۔ اگر میں سازشوں کا عادی ہوتا تو ڈھائی سال میں کئی موقعے ملے تھے۔ مگر میں نے ہمیشہ کردار کو مقدم رکھا۔ مگر وہی لوگ جو خود ایسی روش رکھتے ہیں، دوسروں پر بھی ویسا ہی گمان کرتے ہیں۔
وجیہہ اور مستنصر کی کہانیوں میں ایک قدر مشترک ہے—ایک بے بنیاد الزام، اور اس کا لمبا سایہ۔
ایک جملہ، ایک الزام، ایک فیصلہ — اور زندگی کا رخ ہی بدل گیا۔
یہ تحریر کسی عدالت کے فیصلے کا انتظار نہیں کرتی، یہ صرف ضمیر کی عدالت میں انصاف کی صدا ہے۔
کیونکہ ہر الزام، صرف الزام نہیں ہوتا — کبھی کبھار وہ ایک زندگی کی قیمت بن جاتا ہے
Comments
Post a Comment