کہا جاتا ہے کہ "رشتے خون کے نہیں احساس کے ہوتے ہیں" اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بات بالکل درست ہے ـ یہ جذبہ بھی اُن میں پیدا ہوتا ہے جن پہ گزری ہوتی ہے یا پھر خوف خدا موجود ہو ورنہ کتنی لوگ دیکھے ہیں جو احساس جیسی نعمت سے ہی محروم ہیں کیونکہ کہا جاتا ہے کہ " جو چکی پستی ہے وہی جانتی ہے کہ چکی پسنے میں کتنی محنت درکار ہوتی ہے" اگر آج کل کی بات کی جائے تو احساس نام کا جذبہ تو جیسے ماند پڑتا دیکھائی دیتا ہے. آج کسی کو دوسرے کی فکر نہیں ہے سب اپنی اپنی ریس میں بھاگئے چلئے جارہے ہیں کون تکلیف میں ہے، کون بھوکا ہے. اسی طرح اگر بڑے زاویے میں دیکھیں تو حکومت وقت کو احساس نہیں کہ ایک عام آدمی کا گزر بسر کیسے ہو رہا ہے.آپ دیکھ لیے کہ کشمیر میں کیا ہورہا ہے فلسطین میں کیا ہو رہا ہے کبھی یو این نے احساس کیا ہے ـ احساس تب ہوتا ہے جب خود پہ گزرتی ہے
یہ ایک ایسا جذبہ ہے کہ اگر بیدار ہو جائے تو لاکھ مشکلیں آسان ہوجائیں یقین کریں احساس پیدا ہو جائے تو صبر پیدا ہو جاتا ہے یہ بھی احساس سے جڑا ہوا ہے اپنے اردگرد دیکھ لیجئے جو صابر ہوگا وہ حساس بھی ہوگا.میری رائے کہ مطابق احساس سے ہی انسان کو باقی تمام جذبات سے آشنائی ملتی ہے. مثلاً پیار کا جذبہ، صبر، مثبت سوچ کی آنا ، اور اس طرح یہ فہرست ایسے ہی چلتی جاتی ہے اور انسان کی زندگی میں سکون آنے لگتا ہے.اب آپ دیکھیں کہ احساس ہوا کہ مثبت سوچنا چائیے جب آپ مثبت سوچیں گئے تو کئی مسائل تو ویسے ہی حل ہو جائیں گئے. دنیا میں تمام مکتبہ فکر کے لوگ اس بات پہ متفق ہیں کہ مثبت سوچ ہی ہر کامیابی کی بنیاد ہے.اور یہ سوچ کہاں سے آئے گئ؟ احساس سے
ہمیں چاہیے کہ اپنے اندر احساس کا جذبہ پیدا کریں ہم اکثر کہتے ہیں کہ اللہ کو راضی کرنا ہے نمازیں پڑتے ہیں سب کچھ کرتے ہیں لیکن احساس پیدا نہیں کرتے کہ اللہ کو راضی کرنا ہے تو اُس کی مخلوق کی خدمت کرنا ہوگئی وہ ہم سب کے دلوں میں رہتا ہے بس دل خوش کریں اللہ کا بندہ راضی کر لیں اللہ آپ سے راضی ہوجائے گا.لیکن پھر بات احساس کی آ جاتی ہے.ہمیں اپنے اندر خدمت خلق کا جذبہ رکھنا ہوگا تب ہی اللہ ہمارے لیے آسانیاں پیدا کریں گئے اور وہ ہم سے راضی ہونگے.
اشفاق احمد فرماتے ہیں کہ فاتحہ لوگوں کے مرنے پہ نہیں احساس کے مرنے پہ پڑھنی چاہیے.ہمارے سامنے کی بات ہے کہ ہمارا معاشرہ کہاں جارہا ہے.احساس کا عنصر انسان میں وقتاً فوقتاً کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے اور جب یہ عروج پہ جاتا ہے تو میرے مطابق بندہ صوفی بن جاتا ہے .
احساس کے حوالے سے آپ کو ایک کہانی بیان کرتا ہوں جس کے بعد میرے احساس کے ٹاپک پہ لکھنے کا مقصد پورا ہو جائے گا.
ایک دن ایک بزرگ اپنے اور نوجوان کے درمیان رکھی مونگ پھلیوں میں سے تین عدد مونگ پھلیاں اٹھائی اور پہلی مونگ پھلی کو کھولا اور نوجوان سے پوچھا کہ مجھے کیسے پتہ چلا کہ مونگ پھلی کھول گئی ہے
نوجوان نے اعتماد سے جواب دیا کیونکہ آپ دیکھ سکتے ہیں
بزرگ نے کہا بالکل درست
اس کے بعد بزرگ نے اگلی مونگ پھلی اٹھائی اور آنکھوں کو بند کر لیا اور مونگ پھلی کھولی اور نوجوان سے کہنے لگے میری آنکھیں بند ہیں
مگر پھر مجھے کیسے پتہ چلا کہ مونگ پھلی کھول گئی ہے
نوجوان نے جواب دیا کہ آپ سن سکتے ہیں
بزرگ نے کہا: درست
اس کے بعد بزرگ نے اگلی مونگ پھلی اٹھائی اور آنکھوں کو بند کرلیا اور کانوں میں روئی ڈال دی اور پھر مونگ پھلی کو کھولا اور کہنے لگے میری آنکھیں بند ہیں اور میرے کانوں میں روئی ہے پھر بھی مجھے پتا چل گیا کہ مونگ پھلی کھول گئی ہے.
بتاؤ مجھے کیسے پتہ چلا
نوجوان بولا: اپنے ہاتھوں سے
بزرگ بولے: کیسے! ہاتھوں کے کان ہوتے ہیں نہ آنکھیں
نوجوان بولا : کیونکہ وہ محسوس کرسکتے ہیں
بزرگ مسکرا کر بولے " یہی تو احساس ضروری ہے دیکھنے اور سننے سے بھی ذیادہ"
میرے مطابق انسان اپنے اندر احساس خود سے جنگ کر کے پیدا کر سکتا ہے جس کی سب سے اچھی ابتدا اپنی غلطی تسلیم کر لینے میں ہے.دوسروں کا احساس کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنی اصلاح کی جائے.
(لکھنے کی ایک کوشش کی ہے جس کا باقاعدہ آغاز آج سےکے اس موضوع سے ہوا ہے اگر کوئی غلطی کوتائی ہوئی ہو تو ضرور آگاہ کیجے گا تاکہ میں اپنی اصلاح کرسکوں)
سیماب علی
very nice man
ReplyDelete